ghazal in urdu  


محبت سے لبریز جب دل ہو جائیں

کسوٹی پہ تب ہی اتر پورے آئیں

قضا و قدر کے کھیل سے آشنا گر

تو پھر پر خطر راستوں کو بھی پائیں

مسائل سے ہوئی ہے وحشت سی برپا

سنائی دے بس شہر میں سائیں سائیں

کبھی دکھ رہیں تو کبھی سکھ کے موسم

خزاں پھر بہاروں کی رت جگمگائیں

چمن کے گلوں پر گری کیا یہ شبنم

بنا برسے ساون سا احساس چھائيں

نڈر رہتے ہیں جو، نکل جاتے آگے

کریں بزدلی تو ہمیشہ ہی روئیں

جہاں فتح ناصر بھی کس نے کیا تھا

دلیری سکندر کی من کو جو بھائیں



وہ صورتِ گلاب ہے ہر سو کھلا ہوا

حیرت یہ ہے کہ چشمِ تماشا کو کیا ہوا

اے ساعتِ گریز یہ کیا ہے معاملہ

کیوں دیکھتی نہیں ہو کہاں ہوں پڑا ہوا

بے چہرگی کی بھیڑ میں چہرہ تلاشتے

رنگوں سے خوشبوؤں سے مرا رابطہ ہوا

بارِ دگر کہو جو ابھی زیرِ لب کہا

میں سن نہیں سکا ہوں تمہارا کہا ہوا

پوچھیں گے ہم پہ کیوں نہیں اس کی عنائتیں

گر زندگی سے اپنا کبھی سامنا ہوا

ہم لب شکستہ لوگ تہی دست رہ گئے

گزرا قریب سے وہ سحر بانٹتا ہوا

مجھ پر یہ لطفِ خاص ہے میرے کریم کا

وہ پڑھ رہا ہوں جو نہیں اب تک لکھا ہوا

اس دورِ ابتلا میں ہوں اس سے مدد طلب

میں مطمئن ہوں اس کی طرف دیکھتا ہوا

کرتا ہوں زندگی سے مسلسل معانقہ

حرفِ ہنر ہے تارِ نفس سے ملا ہوا

اس کا خیالِ جاں فزا ہے بانسری کی لے

ہے ذکر اس کا چاندنی شب سے جڑا ہوا

دیتی ہے آکے دستکیں خوشبو بصد نیاز

دامن کا چاک یوں ہی نہیں ہے سلا ہوا



تم سے بچھڑ کے خود سے بھی ہم دور ہو گئے

گمنام ہو کے اور بھی مشہور ہو گئے

یہ اور بات تم نہ سہی دوسرا سہی

کچھ فیصلے تو ہم کو بھی منظور ہو گئے

شہرت جنہیں ملی تھی ہماری دعاؤں سے

قدرت کی شان ہم سے بھی مغرور ہو گئے

میں نے تو تم کو ٹوٹ کے چاہا تھا جان جاں

تم جانے کس خیال سے مجبور ہو گئے

ہاں اپنی شاعری پہ ہمیں ناز ہے غزلؔ

کہنے کو اپنے خواب کئی چور ہو گئے



تم جان آرزو ہو نشاط خیال ہو

کیا دوں بھلا مثال کہ تم بے مثال ہو

دیکھا ہے جب سے تم کو عجب حال ہے مرا

لگتا ہے جیسے تم ہی مرے ہم خیال ہو

ملنے کی آرزو میں کبھی اس طرح ملیں

دنیا کرے جدا تو بچھڑنا محال ہو

لائیں کہاں سے جرأت اظہار مدعا

ایسے میں جبکہ اپنی ہی حالت نڈھال ہو

میں پھر رہی ہوں سائے کے پیچھے یہ سوچ کر

شاید کہ اس طرح سے طبیعت بحال ہو

خود کو غزلؔ اکیلی سمجھتی ہو کس لئے

یہ کون جانے تم بھی کسی کا خیال ہو



دل پہ گراں ہے ذکر فراق و وصال بھی

گزرے ہیں تیرے بعد کئی ماہ و سال بھی

ترک تعلقات پہ نادم ہے وہ بہت

اوروں سے پوچھتا ہے وہ اب میرا حال بھی

ناکام عشق زندۂ جاوید ہو گئے

تاریخ عشق دیتی ہے ایسی مثال بھی

کیا عشق میرے دور میں ناپید ہو گیا

آتا ہے گاہے گاہے یہ دل میں خیال بھی

دل پھر کسی کی یاد سے گھبرا گیا غزلؔ

لگتی ہے آج مجھ کو طبیعت نڈھال بھی